Короткий рассказ
0
1.1k ПРОСМОТРОВ
В процессе
reading time
AA Поделиться

وہ کون تھی؟؟؟

کبھی کبھی زندگی میں بعض ایسے واقعات آتے ہیں۔جو برسوں گزرنے کے بعد بھی ہماری یادداشت میں جوں کہ توں محفوظ رہ جاتے ہیں۔۔۔ایسا ہی ایک ڈرا دینے والا واقعہ میرے ایک عزیز کے ساتھ بھی پیش آیا جو آ پ انھی کی زبانی سنیئے۔۔۔۔۔

یہ اس وقت کی بات ہے جب ہم کراچی کے علاقے گارڈن میں رہتے تھے۔۔میں اس وقت آٹھویں جماعت کا طالبِ علم تھا۔۔۔ہم جس اپارٹمنٹ میں رہتے تھے وہاں میرے اسکول کے کافی دوست تھے۔۔۔لیکن میر ا سب سے اچھا دوست اور میرا ہم جماعت فیصل تھا۔۔۔۔ہم دنوں ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم تھے۔۔۔اسکول تو ساتھ جاتے ہی تھے اسکول کے بعد بھی شام میں ہم ایک ساتھ ہی کرکٹ کھیلنے جاتے۔۔۔ہمارا ایک دوسرے کے گھروں میں بھی آنا جاناتھا۔۔۔۔۔

ہمارا معمول تھا کہ ہم اسکول سے آکے تھوڑی دیر آرام کرتے ۔۔۔پھر اپنا ہوم ورک پورا کر کے شام کو کرکٹ کھیلنے گھر سے تھوڑے فاصلے پر موجود گراؤنڈ جاتے۔۔۔یوں ہم کرکٹ کھیل کر واپسی میں ’’بگ بائیٹ‘‘نامی ایک دکان سے کھاتے پیتے ہوئے شام ڈھلنے کے بعد ہی گھر کی راہ لیتے۔۔۔سردی ہو یا گرمی ہمارے اس معمول میں کوئی فرق نہیں پڑتا تھا۔۔۔۔اس گراؤنڈ کا نام تو مجھے یاد نہیں لیکن وہاں تک جانے کے لیے ہمیں بریٹو روڈ کو کراس کرنا پڑتا تھا۔۔۔اب تو گارڈن کا علاقہ کافی پُر رونق ہوگیاہے لیکن آج سے بائیس سال پہلے رات کے آٹھ بجتے ہی وہ علاقہ کافی سنسان ہوجاتا تھا۔۔اور اگر سردیاں ہوں پھر تو شاذ ونادر ہی کوئی وہاں سے گزرتا تھا۔۔۔

ایسی ہی ایک سرد شام میں اور فیصل کرکٹ کھیل کر واپس اپنے گھر آ رہے تھے ۔۔اس دن ہمیں کھیلتے ہوئے وقت گزرنے کا پتہ ہی نہیں لگا اور ہمیں واپسی میں تھوڑی دیر ہو گئی تھی۔۔۔کچھ سردیوں کی وجہ سے بھی اندھیرابھی جلد ہی ہو جاتا تھا۔۔۔گھر واپس آنے کے لیے ہمیں بریٹو روڈ کوکراس کرنا تھا۔۔۔جہاں دو رویہ کھڑے قطار در قطاردرخت رات کے اندھیرے میں ویسے ہی بڑے خوفناک لگتے تھے۔۔۔درخت اتنے گھنے تھے کہ اسٹریٹ لائٹس کی روشنی بھی ناکافی لگتی تھی۔۔۔۔۔

ہم دونوں دوستوں کو اندازہ تھا کہ دیر ہونے کی وجہ سے آج ہمیں یقینی طور پر ڈانٹ پڑنے والی ہے ۔۔اس لیے ہم لمبے لمبے ڈگ بھرتے گھر کی جانب جا رہے تھے۔۔۔اس زمانے میں بریٹو روڈ پر گاڑیوں کی آمد و رفت نہ ہونے کے برابر ہوتی تھی۔۔۔اس وقت بھی اس لمبی سی سیدھی سڑک پر ہم دو دوستوں کے علاوہ اور کوئی نہ تھا۔۔۔اسٹریٹ لائٹ کی ناکافی روشنی سڑک پر پڑ تو رہی تھی۔۔۔ لیکن اس اندھیرے اور روشنی کے امتزاج میں درختوں کے سائے اور بھی گھنے اور کچھ کچھ خوفناک لگ رہے تھے۔۔۔۔

ہم دونوں اپنی دھن میں چلے جار ہے تھے۔۔۔کہ اچانک مجھے فیصل کی سرگوشی سنائی دی’’ عرفان سامنے غور سے دیکھ‘‘ ۔۔۔فیصل کے احساس دلانے پر میں نے نیم اندھیرے میں آنکھیں پھاڑ کے جو دیکھا ۔۔تو کیا دیکھتا ہوں کیہ سامنے سے ایک ہیولا سا ہماری طرف بڑھتا نظر آ رہا ہے۔۔۔ابھی جس سڑک پر صرف ہم دونوں ہی تھے اور دور دور تک کسی ذی روح کانام و نشان نظر نہیں آ رہا تھا۔۔۔اچانک اسی سڑک پر آپ کو کوئی سامنے سے اپنی ہی جانب بڑھتا نظر آئے تو آپ کیسا محسوس کریں گے؟؟؟

اچھے خاصے سرد موسم میں بھی ہمیں اپنے جسم پسینے میں بھیگے ہوئے سے لگے۔۔۔نہ جائے رفتن نہ پائے ماندن کے مصداق ہم نہ آگے بڑھ پا رہے تھے اور نہ پیچھے بھاگنے کے لیے قدم اٹھ رہے تھے۔۔۔مرتے کیا نہ کرتے ہم سر جھکائے دل ہی دل میں قرآنی آیات کا ورد کرتے آہستہ آہستہ چلتے رہے۔۔۔۔جیسے جیسے وہ ہیولا قریب آرہا تھا ہمارے دل کی دھڑکنیں رکتی جا رہی تھیں۔۔۔پھر وہ وجود اتنی قریب آ گیا کہ اب ہم اسے دیکھ سکتے تھے۔۔۔

سر سے پیر تک سفید لباس میں ملبوس وہ کوئی عورت تھی۔۔۔جس کے لمبے لیکن بے ترتیب بالوں نے اس کے آدھے چہرے کو ڈھانپ رکھا تھا۔۔۔اس لیے ہم اس کا چہرہ نہیں دیکھ پائے۔۔۔۔مجھے آج بھی یاد ہے کہ وہ عورت ننگے پاؤں تھی۔۔۔محض چند لمحے لگے ہوں گے ہمیں اس کے قریب سے گزرنے میں ۔۔۔لیکن ان چند لمحوں نے ہی ہمارا خون خشک کردیا تھا۔۔۔بس یوں سمجھ لیں کہ اس سڑک پر ایک سمت سے ہم آ رہے تھے اور وہ عورت جا رہی تھی۔۔۔۔اس نے نظر اٹھا کر بھی ہماری جانب نہیں دیکھا۔۔۔اور نہ ہم میں اتنی ہمت تھی کہ ہم اس کی جانب غور سے دیکھ پاتے۔۔۔۔دور سے جتنا اس کا حلیہ دیکھ پائے تھے وہ آپ کے گو ش گزار کر دیا۔۔۔۔ہم کسی ٹرانس کی کیفیت میں بس سیدھے سیدھے چلے جا رہے تھے۔۔۔۔

سر جھکائے اس عورت کے قریب سے گزرتے ہوئے ہم دونوں اپنے دل کی دھڑکن صاف سن سکتے تھے۔۔۔وہ چند پل ہماری جان پر بن آئے تھے۔۔۔جیسے ہی ہم اس عورت کے قریب سے گزر کے تھوڑا سا آگے گئے۔۔۔۔اچانک ہمیں ایسا لگا جیسے ہمارے جسم سے کوئی کرنٹ سا گزرا ہو۔۔۔ہم ایک جھر جھری سی لے کر رہ گئے۔۔۔نہ جانے کس خیال کے تحت ہم دونوں نے بیک وقت پیچھے مڑ کر دیکھا۔۔۔تو یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ پیچھے سڑک پر دور دور تک کسی کا نام و نشان نہیں تھا۔۔۔۔

بریٹو روڈ کی وہ ایک سیدھی سڑک ہے جس سے نہ کوئی ذیلی سڑک نکلتی ہے اور نہ ہی کہیں مڑنے کے لیے کوئی گلی۔۔۔۔ہم دونوں ششدر رہ گئے کہ ابھی جس عورت کو ہم نے بقائمی ہوش و حواس دیکھا تھا وہ اچانک کہاں چلی گئی۔۔۔۔اسے زمین کھا گئی یا آسمان نگل گیا۔۔۔۔ابھی ہم اس کے قریب سے گزرنے کی دہشت سے ہی نہیں نکل پائے تھے کہ اس کے اس طرح اچانک غائب ہونے سے ہمارے حواس ہی گم ہوگئے۔۔۔۔پھر تو ہم نے نہ آؤ دیکھا نہ تاؤ اورسر پر پاؤں رکھ کر جو بھاگے تو اپنے اپارٹمنٹ کے اندر آ کر ہی دم لیا۔۔۔ہم دونوں کے دل اس وقت سینہ توڑ کر باہر نکلنے کے درپے تھے۔۔۔۔حلق میں کانٹے سے چبھتے محسوس ہو رہے تھے۔۔۔جبکہ پوری طاقت سے بھاگنے کی وجہ سے سانس دھونکنی کی مانند چل رہا تھا۔۔۔۔۔ہم صرف اس بات پر ہی شکر ادا کر رہے تھے کہ اس عجیب الخلقت عورت نے ہمیں کچھ نہیں کہا تھا اور ہم بخیریت وہاں سے نکل آئے تھے۔۔۔

اس واقعے کے اگلے ہی دن مجھے تیز بخار نے آ گھیرا۔۔۔حالانکہ ہمیں کوئی نقصان نہیں پہنچا تھا لیکن وہ چند لمحوں کا ڈر ہی ہمارے دل میں اپنی چھاپ چھوڑ چکا تھا۔۔۔۔اس دن کے بعد سے ہم نے تنہا اس سڑک سے گزرنے سے پرہیز ہی کیا۔۔۔اس کے بعد میں جتنا بھی عرصہ وہاں رہا۔۔۔۔کبھی ایسا کوئی اور واقعہ میرے ساتھ پیش نہیں آیا۔۔۔ لیکن یہ بات میں آج بھی سمجھنے سے قاصر ہوں کہ اس رات ہمیں دکھائی دینے والی وہ عورت کون تھی؟؟؟؟؟؟

اگر وہ کوئی غیر مرئی مخلوق تھی توعجیب بات یہ تھی کہ اس نے ہمیں نقصان پہنچانا تو دور کی بات ہماری طرف دیکھنا بھی گوارا نہیں کیا۔۔۔اور اگروہ کوئی عورت تھی تو اچانک لمحے بھر میں کہاں غائب ہو گئی۔۔۔۔۔لیکن یہاں سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ کوئی عورت اتنی رات گئے گھر سے ننگے پاؤں کیوں نکلے گی؟؟؟کہیں ایسا تو نہیں کہ وہ چھلاوا اپنے مخصوص شکار کی تلاش میں نکلا تھا جسے ہم میں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔۔۔۔

میں اور فیصل تو پھرکبھی اس سڑک پر تنہا نہیں گئے۔۔۔لیکن اس کے کئی سال بعد میں نے ایک دو اورلوگوں سے اسی سڑک کے حوالے سے کئی واقعات سنے۔۔۔۔جن میں سے ایک صاحب نے بھی ایسی ہی ایک چھلاوہ عورت کا ذکر کیا جو انکے دیکھتے ہی دیکھتے لمحہ بھر میں غائب ہوگئی۔۔۔۔۔اب توگارڈن کا علاقہ کافی گنجان آبادہو گیا ہے۔۔۔لیکن اگر کبھی آپ بریٹو روڈ سے گزریں تو نوٹ کیجیئے گا کہ آج بھی اس سڑک سے گزرتے ہوئے عجیب سا خوف محسوس ہوتاہے۔۔۔۔ایسا لگتا ہے کہ کوئی ہے جو دبے پاؤں آپ کے پیچھے چلا آ رہا ہے۔۔۔۔لیکن جب مڑ کر دیکھو تو وہاں کچھ نہیں ہوتا۔۔۔۔لیکن کسی کی موجودگی اپنے ہونے کا احساس ضرور دلاتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

16 октября 2021 г. 13:35 0 Отчет Добавить Подписаться
0
Продолжение следует…

Об авторе

Прокомментируйте

Отправить!
Нет комментариев. Будьте первым!
~